ایک اور ننھی کلی جیسی کمسن بچی کو نااہل نظام کا خمیازہ بھگتنا پڑا۔
کوہاٹ میں سفاکیت کا شکار ہونے والی مکھن جیسی رنگت اور کنول جیسی نزاکت والی پری #حریم کا بنیادی تعلق بابل خیل، کرک سے ہے۔ یہ کمسن بچی کل سے لاپتہ تھی اور آج معلوم ہوا کہ اس نے مہد سے لحد تک کا سفر طے کر لیا ہے۔ اناللہ وانا الیہ راجعون
تصاویر میں بچی کے چہرہ پر نگاہ ڈالیں تو اللہ تعالی کا حسن جھلکتا نظر آئے۔ معصومیت ایسی کہ درندگی کا تصور تک ہی محال ہو مگر افسوس کہ انسان مریخ اور چاند پر تو پہنچ گیا نہ پہنچ سکا تو انسانیت کی معراج پر۔ سوچ رہا ہوں کہ بیٹیاں تو سب کی سانجھی ہوتی ہیں، تو پھر یہ کیسا انسان نما ظالم حیوان تھا کہ جس کے دل میں اس ننھی سی کلی کو دیکھ کر پدرانہ شفقت کی بجائے سفلی جذبات نے ہلچل مچائی۔ نہ اس کے غیرتِ ایمانی کو کوئی ٹھیس پہنچی اور نہ ہی اس کے احترامِ انسانیت کے جذبات مجروح ہوئے۔
میں #Justice4Hareem کی روایتی ہیش ٹیگ کے ذریعے حکومتِ وقت، عدلیہ اور باقی اداروں سے انصاف کی بھیک ہرگز نہیں مانگوں گا کہ ہمارا یہی نااہل نظام تو اصل میں ایسے لوگوں کو تحفظ فراہم کرتا ہے۔ انہی لوگوں کی وجہ سے ہی نظامِ زندگی مفلوج ہو کر رہ گیا ہے اور انہی لوگوں کی وجہ سے ہی بھوکے بھیڑئے ہماری گلیوں اور محلوں میں مٹر گشت کرتے رہتے ہیں۔
میری التجاء، میری فریاد اس علاقے، اس محلے کے مکینوں، پشتون برادری کے جانباز سپوتوں اور عام پاکستانیوں سے ہے کہ تھوڑی سی بھی اگر آپ میں کوئی غیرت باقی ہے، کوئی شرم ہے اور کوئی خیا ہے تو ملا لیں کسی کے گھر میں ماتم کی صداؤں سے اپنی آواز اور نکلیں باہر۔ پکڑیں ایسے بدکاروں کو اور بھسم کر دیں آگ لگا کر۔ ورنہ اللہ نہ کرے کسی دن آپ کی بچی یا بہن کے ساتھ بھی ایسا ہی واقعہ رونما ہو سکتا ہے۔
تقریباً پون صدی سے آپ سے رزق کا آخری نوالہ تک چھینا جا رہا ہے اور آپ خاموش تماشائی بنے بیٹھے ہیں۔ کم از کم اپنی عزت پر تو کوئی سمجھوتہ نہ کریں۔
ﮐﻞ ﺩﻭﭘﮩﺮ ﺿﻠﻊ ﮐﺮﮎ ﺳﮯ ﺗﻌﻠﻖ ﺭﮐﮭﻨﮯ ﻭﺍﻟﯽ ﻣﻌﺼﻮﻡ ﺗﯿﻦ ﺳﺎﻟﮧ ﺑﭽﯽ ﺣﺮﯾﻢ ﮐﻮ ﺧﭩﮏ ﮐﺎﻟﻮﻧﯽ ﺳﮯ ﮐﺴﯽ ﻧﮯ ﺍﻏﻮﺍﺀ ﮐﯿﺎ ﺗﮭﺎ۔ ﺁﺝ ﺻﺒﺢ 6 ﺑﺠﮯ ﮐﻮﮨﺎﭦ ﻣﯿﮟ ﺍﻥ ﮐﯽ ﻻﺵ ﻣﻠﯽ۔ ﻟﻮﺍﺧﻘﯿﻦ ﻧﮯ ﻻﺵ ﮐﻮ ﮨﺴﭙﺘﺎﻝ ﭘﮩﻨﭽﺎ ﺩﯾﺎ۔ ﺗﻮ ﺟﻨﻮﺑﯽ ﭘﺨﺘﻮﻧﺨﻮﺍ ﮐﮯ ﺳﺐ ﺳﮯ ﺑﮍﮮ ﮨﺴﭙﺘﺎﻝ ﻣﯿﮟ ﮐﻮﺋﯽ ﺑﮭﯽ ﮈﺍﮐﭩﺮ ﻣﻮﺟﻮﺩ ﻧﮩﯿﮟ ﺗﮭﺎ۔ ﺑﭽﯽ ﮐﮯ ﻟﻮﺍﺧﻘﯿﻦ ﻧﮯ ﺍﭘﻨﯽ ﺑﯿﭩﯽ ﮐﻮ ﮔﮭﻮﺩ ﻣﯿﮟ ﻟﺌﮯ ﺩﻭ ﮔﮭﻨﭩﮯ ﺗﮏ ﮨﺴﭙﺘﺎﻝ ﮐﮯ ﻓﺮﺵ ﭘﺮ ﺑﯿﭩﮭﮯ ﮈﺍﮐﭩﺮ ﮐﺎ ﺍﻧﺘﻈﺎﺭ ﮐﯿﺎ۔ ﯾﮧ ﮨﮯ ﭘﺨﺘﻮﻧﺨﻮﺍ ﻣﯿﮟ ﺻﺤﺖ ﺍﯾﻤﺮﺟﻨﺴﯽ ﮐﺎ ﺣﺎﻝ
#JusticeForHareem



Post A Comment:
0 comments: